صبا چلی ہے جس انداز سے گُلِستاں میں
صبا چلی ہے جس انداز سے گُلِستاں میں |
تِری نظر میں کہاں باریاب
ہونا تھا
تمام عُمر، یہی اِضطراب
ہونا تھا
صبا چلی ہے جس انداز سے
گُلِستاں میں
کس کو لالہ، کسی کو
گُلاب ہونا تھا
بڑی اُمید تھی کارِ
جہاں میں دِل سے، مگر
اِسے تو، تیری طلب میں
خراب ہونا تھا
سفر کی رات، مسافر کی میزبانی
کو
کوئی ستارہ، کوئی
ماہتاب ہونا تھا
بس اِتنی عُمْر تھی اُس
سر زمینِ دِل پہ مِری
پھر اِس کے بعد اِسے،
وہمِ خراب ہونا تھا
پروین شاکر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں