چشمِ گریاں میں وہ سیلاب تھے اے یار کہ بس
گرچہ
کہتے رہے مجھ سے مرے غم خوار کہ بس
زندگی تھی کہ قیامت تھی کہ فرقت تیری
ایک اک سانس نے وہ وہ دیے آزار کہ بس
اس سے
پہلے بھی محبت کا قرینہ تھا یہی
ایسے بے حال ہوئے ہیں مگر اِس بار کہ بس
اب وہ
پہلے سے بلا نوش و سیہ مست کہاں
اب تو ساقی سے یہ کہتے ہیں قدح خوار کہ بس
لوگ کہتے
تھے فقط ایک ہی پاگل ہے فرازؔ
ایسے ایسے ہیں محبت میں گرفتار کہ بس
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں