🌙 تنہائی، زخم، اور بچھڑنے کا نوحہ — پروین شاکر کی نظم کا ادبی تجزیہ
تحریر: آپ کا نام
ادب میں درد کی سب سے لطیف اور پراثر ترجمانی شاید شاعری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اور جب بات ہو پروین شاکر کی، تو ان کی شاعری میں جذبات کی وہ گہرائیاں ملتی ہیں جو قاری کو اندر تک ہلا دیتی ہیں۔
آج ہم ان کی ایک دل کو چھو لینے والی نظم پر بات کریں گے، جو تنہائی، بچھڑنے، اور زندگی کی بےرنگ حقیقتوں کو نہایت خوبصورتی اور دکھ بھری سادگی سے بیان کرتی ہے۔
📝 نظم:
تمام لوگ اکیلے، کوئے رہبر ہی نہ تھابچھڑنے والوں میں اک میرا ہمسفر ہی نہ تھا
پہلا شعر ہی پورے احساس کا خلاصہ ہے: سبھی لوگ راہنما کے بغیر، اور وہ بھی جس پر سب سے زیادہ اعتبار تھا — وہ ہمسفر بھی نہیں رہا۔
برہنہ شاخوں کا جنگل گڑا تھا آنکھوں میںوہ رات تھی کہ کہیں چاند کا گزر ہی نہ تھا
اندھیرے اور ویرانی کا عالم، امید کا چراغ (چاند) بھی نظر نہیں آتا۔ آنکھیں جیسے سوکھی شاخوں کا جنگل ہوں۔
تمھارے شہر کی ہر چھاؤں مہرباں تھی مگرجہاں پہ دھوپ کھڑی تھی وہاں شجر ہی نہ تھا
کبھی کبھی راحتیں بھی ناپائیدار ہوتی ہیں۔ جہاں تکلیف تھی، وہاں کوئی سایہ دار درخت (سہارا) ہی نہیں تھا۔
سمیٹ لیتی شکستہ گلاب کی خوشبوہوا کے ہاتھ میں ایسا کوئی ہنر ہی نہ تھا
ٹوٹے ہوئے جذبات کو سمیٹنے کی بھی کوئی صلاحیت نہیں بچی۔ ہوا بھی بےبس ہے۔
میں اتنے سانپوں کو رستے میں دیکھ آئی تھیکہ ترے شہر میں پہنچی تو کوئی ڈر ہی نہ تھا
زندگی کی تلخیاں اور زہریلے تجربات اتنے زیادہ تھے کہ اب کسی نئی مصیبت کا خوف باقی نہیں رہا۔
کہاں سے آتی کرن زندگی کے زنداں میںوہ گھر ملا تھا مجھے جس میں کوئی در ہی نہ تھا
قید جیسی زندگی، امید کی کوئی کرن نہیں، کیونکہ دروازہ (راستہ) ہی نہیں جس سے روشنی داخل ہو سکے۔
بدن میں پھیل گیا شاخ بیل کی مانندوہ زخم سوکھتا کیا، جس کا چارہ گر ہی نہ تھا
زخم اتنا گہرا کہ پورے وجود میں پھیل گیا۔ اور جب مرہم رکھنے والا نہ ہو، تو شفا کیسی؟
ہوا کے لائے ہوئے بیج پھر ہوا میں گئےکھلے تھے پھول کچھ ایسے کہ جن میں زر ہی نہ تھا
زندگی کے خواب ادھورے، کامیابیاں بھی ایسی جو اندر سے کھوکھلی تھیں۔
قدم تو ریت پہ ساحل نے بھی رکھنے دیابدن کو جکڑے ہوئے صرف اک بھنور ہی نہ تھا
ساحل پر قدم رکھنا تو نصیب ہوا، لیکن دل و جاں اب بھی کسی بھنور (داخلی کرب) میں قید ہیں۔
🌾 تجزیہ اور تاثر:
پروین شاکر کی اس نظم میں علامتوں (symbolism) کا استعمال شاندار ہے۔ ہر شعر ایک مکمل کائنات ہے، جہاں دکھ، جدائی، بےرنگی اور وجود کی بےقراری چھپی ہوئی ہے۔
شاعرہ ہمیں بتاتی ہیں کہ تنہائی صرف جسمانی نہیں ہوتی، یہ ایک روحانی قید ہے، جہاں امید، سہارا اور احساسات سب ناپید ہو جاتے ہیں۔ وہ ہر اُس عورت کی آواز بن جاتی ہیں، جو زندگی کی ٹھوکریں سہہ کر بھی، زبان بند رکھتی ہے مگر دل میں طوفان رکھتی ہے۔
💭 آخر میں:
پروین شاکر کی یہ نظم صرف پڑھنے کے لیے نہیں، محسوس کرنے کے لیے ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ہر حساس دل رکھنے والے کو چھو جاتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں