مجبوری کا سودا
تحریر: عمران اقبالبارش ہلکی ہلکی ہو رہی تھی۔ سرد ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بادلوں کی گرج دل میں عجب سا ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ ریلوے اسٹیشن کے ایک پرانے بنچ پر وہ خاموشی سے بیٹھا آسمان کو تک رہا تھا۔ شاید وہ کسی جواب کی تلاش میں تھا، یا شاید اس خاموش آسمان سے وہ باتیں کر رہا تھا، جو کسی اور سے کہنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔
اس کا نام وقاص تھا۔ تعلیم میں ہمیشہ آگے، خوابوں میں ہمیشہ اونچا اُڑنے والا — مگر آج وہ اپنے ہی خوابوں کے ملبے پر بیٹھا تھا۔ چند سال پہلے تک وہ کہتا تھا، "میں اپنی مرضی سے جیو ں گا، اپنے خوابوں کو حقیقت بنا کر دکھاؤں گا۔" مگر آج اُس کی آنکھوں میں تھکن، چہرے پر شکست، اور لبوں پر خاموشی تھی۔
وقاص ایک درمیانے طبقے کے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ باپ ایک فیکٹری میں کام کرتے کرتے بیمار ہو چکا تھا، ماں نے کبھی اپنی خواہش کو زبان پر نہیں لایا تھا۔ چھوٹے بہن بھائیوں کی پڑھائی، علاج، اور گھر کا خرچ — سب اب وقاص کے کندھوں پر تھا۔
اسے بیرونِ ملک اسکالرشپ ملی تھی۔ اس کا خواب تھا کہ وہ انجینئر بن کر لوٹے، ایک نئی دنیا بسائے۔ مگر اسکالرشپ کا جواب دینے کی آخری تاریخ تھی اور اسی روز ماں کی دوائی ختم ہو گئی تھی، چھوٹے بھائی کے اسکول کی فیس جمع نہ ہوئی، اور باپ کو ایک بار پھر اسپتال لے جانا پڑا۔
اس نے پرس میں موجود آخری روپے نکالے، ایک طرف فلائٹ کی ٹکٹ کی قیمت تھی، دوسری طرف گھر کی دوا، فیس، اور علاج۔ کچھ دیر وہ سوچتا رہا، پھر ایک گہری سانس لی، اور جیسے کوئی اندر ٹوٹ گیا ہو، ویسا ہی فیصلہ کر لیا — اس نے ٹکٹ نہیں خریدی۔
مگر سچ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر روز مرتا ہے۔ جب کبھی وہ کسی جہاز کو اڑتا دیکھتا ہے، یا انجینئرنگ کی کوئی خبر سنتا ہے — دل کی ایک رگ اور ٹوٹتی ہے۔ مگر لب خاموش رہتے ہیں، آنکھیں نم، اور دل گواہی دیتا ہے کہ "وقاص! تم نے جو سودا کیا تھا، وہ صرف اپنے خوابوں کا نہیں تھا، وہ تمہاری محبت، تمہارے جذبے، اور تمہاری خودی کا سودا تھا — جو تم نے مجبوری میں کیا۔"
رات ڈھل رہی تھی، بارش تھم چکی تھی۔ وقاص اٹھا، اپنے کوٹ کو جھاڑا، اور بغیر کسی شکوے کے گھر کی طرف چل دیا — کیونکہ گھر میں ماں دوا کی منتظر تھی، بہن بھائی کو کل اسکول جانا تھا، اور باپ کی سانسیں ابھی اس کے سہارے پر تھیں۔
اختتامیہ
وقاص جیسے لوگ ہر گلی، ہر شہر میں ہوتے ہیں۔ وہ بولتے نہیں، چیختے نہیں، شکوہ نہیں کرتے — بس مجبوری کے سودے کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے خوابوں کی قربانی دے کر دوسروں کی حقیقت سنوارتے ہیں۔
یہی لوگ اصل ہیرو ہوتے ہیں، جنہیں کوئی سراہتا نہیں — مگر زندگی کا اصل بوجھ وہی اٹھاتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں