اور تو کچھ نہیں کیا میں نے
اپنی
حالت تباہ کر لی ہے
آخری
بار آہ کر لی ہے
میں
نے خود سے نباہ کر لی ہے
اپنے
سر اک بلا تو لینی تھی
میں
نے وہ زلف اپنے سر لی ہے
دن
بھلا کس طرح گزارو گے
وصل
کی شب بھی اب گزر لی ہے
جاں
نثاروں پہ وار کیا کرنا
میں
نے بس ہاتھ میں سپر لی ہے
جو
بھی مانگو ادھار دوں گا میں
اس
گلی میں دکان کر لی ہے
میرا
کشکول کب سے خالی تھا
میں
نے اس میں شراب بھر لی ہے
اور
تو کچھ نہیں کیا میں نے
اپنی
حالت تباہ کر لی ہے
شیخ
آیا تھا محتسب کو لیے
میں
نے بھی ان کی وہ خبر لی ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں